کد خبر: ۲۰۵۲۵
زمان انتشار: ۱۵:۲۷     ۲۷ شهريور ۱۳۹۰

بسم‌الله الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمة الله و برکاته
الحمدلله رب العالمین و الصلوة و السلام علی سیدنا محمد و آله الطیبین و صحبه المنتجبین
قال ‌الله العزیز الحکیم: بسم‌الله‌الرحمن‌الرحیم يا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ ‌اللَّهَ وَ لا تُطِعِ الْكافِرينَ وَ الْمُنافِقينَ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليماً حَكيماً(1) وَ اتَّبِعْ ما يُوحى‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً (2) وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَ كَفى‏ بِاللَّهِ وَكيلاً (3) [احزاب]

اسلامی بیداری بین الاقوامی کانفرنس سے خطابحاضرین محترم اور مہمانان عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس جگہ ہم سب کو جس چیز نے یکجا کیا ہے وہ اسلامی بیداری ہے۔ یعنی امت اسلامیہ کے اندر پیدا ہونے والی آگاہی اور انگڑائی جو اس وقت علاقے کی قوموں میں عظیم تبدیلی پر منتج ہوئی ہے اور انقلابوں اور عوامی تحریکوں کا سرچشمہ قرار پائی ہے جس کا علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے شیطانوں کو قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا، ایسی عوامی تحریکیں جنہوں نے استبداد اور استکبار کے حصار کو توڑ دیا اور ان کی طرف سے نگہبانی پر مامور قوتوں کو ہزیمت سے دوچار کر دیا۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عظیم سماجی تغیرات ہمیشہ تاریخی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار اور علم و آگہی اور تجربات کے ثمرات ہوتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران مصر، عراق، ایران ہندوستان اور ایشیا و افریقہ کے دیگر ممالک میں اسلامی تحریکیں چلانے والی عظیم فکری و جہادی شخصیات کا ظہور عالم اسلام کی آج کی صورت حال کا مقدمہ تھا۔
جس طرح سنہ انیس سو پچاس اور ساٹھ کے عشرے کے تغیرات بعض مذکورہ ممالک میں مادہ پرست مکاتب فکر اور نظریات والی حکومتوں کی تشکیل کا باعث بنے تھے اور اپنے فطری تقاضوں کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے مغرب کی استکباری اور استعماری طاقتوں کے دام میں گرفتار ہوتے چلے گئے وہ بڑے سبق آموز تجربات ہیں جن کا عالم اسلام کے موجودہ عوامی فکری رجحان کی سمت کے تعین میں اہم کردار ہو سکتا ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کا واقعہ جس میں بقول امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے، شمشیر پر خون کو فتح حاصل ہوئی، اسی طرح پائیدار، مقتدر، شجاع اور مسلسل ارتقائی منزلیں طے کرنے والے اسلامی نظام کی تشکیل اور آج اسلامی بیداری میں اس کی گہری تاثیر بجائے خود بڑی طویل اور بحث و تحقیق طلب داستان ہے جو عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کے تجزئے اور اس کی تاریخ نگاری کا انتہائی اہم باب ثابت ہوگی۔
خلاصہ یہ کہ عالم اسلام میں اس وقت تیزی کے ساتھ پھیلنے والے حقائق ایسے نہیں ہیں کہ تاریخی بنیادوں اور فکری و سماجی مقدمات سے جن کا کوئی تعلق نہ ہو کہ دشمن اور سطحی فکر کے لوگ انہیں وقتی ہیجان اور سطحی حادثہ قرار دیں اور اپنے متعصبانہ اور گمراہ کن تبصروں سے قوموں کے دلوں میں روشن ہونے والی امید کی شمع کو خاموش کر دیں۔ میں اس برادرانہ گفتگو میں تین بنیادی نکات کا جائزہ لینا چاہوں گا؛
1: ان انقلابوں اور عوامی تحریکوں کی ماہیت پر اجمالی تبصرہ
2: سر راہ پیش آنے والے خطرات اور اندیشے
3: ان خطرات کی پیشگی روک تھام اور ان سے نجات کے طریقوں سے متعلق تجاویز
1: پہلے موضوع کے سلسلے میں، میری نظر میں جو چیز ان انقلابات کے تعلق سے سب سے اہم ہے میدان عمل اور مجاہدت کے پلیٹ فارم پر خود عوام کی براہ راست موجودگی ہے، صرف خواہش و ایمان و ایقان کی صورت میں نہیں بلکہ باقاعدہ جسمانی طور پر۔ اس شراکت اور ان قیاموں میں بہت فرق ہے جو کسی فوجی گروہ یا مسلح تنظیم کے ذریعے لوگوں کی نظروں کے سامنے انجام پاتے ہیں یا عوام کی رضامندی بھی ان میں شامل ہوتی ہے۔
افریقہ اور ایشیا کے بعض ممالک میں سنہ انیس سو پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں ان ممالک کے مختلف عوامی طبقات اور نوجوانوں کے دوش پر انقلاب آگے نہیں بڑھا بلکہ کچھ باغی گروہوں اور چھوٹی مسلح تنظیموں نے اس مہم کی کمان سنبھالی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا اور وارد عمل ہو گئیں، پھر جب یہ تنظیمیں یا ان کے بعد آنے والی نسل نے کچھ خاص عوامل اور محرکات کی بنیاد پر اپنا راستہ بدل لیا تو ان کے ذریعے کامیاب ہونے والے انقلابوں کی ماہیت بھی دگرگوں ہوکر رہ گئی، نتیجتا ان ممالک پر دشمن نے دوبارہ اپنے پنجے گاڑ لئے۔
اس میں اور عوام کے دوش پر آگے بڑھنے والی تحریک میں بہت فرق ہے۔ اس وقت عوام دل و جان سے میدان عمل میں مصروف پیکار ہیں اور اپنی مجاہدت و فداکاری سے دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
آج عوام خود نعروں کا تعین کر رہے ہیں، اہداف کی نشاندہی کر رہے ہیں، دشمنوں کی شناخت اور ان کے تعاقب کا اہم کام انجام دے رہے ہیں، مطلوبہ مستقبل کا اجمالی ہی سہی ایک خاکہ تیار کر چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ "سازشی خواص" کو اور خاص طور پر دشمن سے وابستہ داخلی عناصر کو انحراف پیدا کرنے، دشمن سے ساز باز اور سمت کو مکمل طور پر دگرگوں کر دینے کا موقع نہیں دے رہے ہیں۔
عوامی تحریک کی صورت میں ممکن ہے کہ انقلاب کا عمل سست رفتاری سے آگے بڑھے لیکن بے ثباتی اور سطحی فکر سے دور رہے گا، یہ ا ایسا کلمہ طیبہ ہے جو اس کلام خداوندی کا مصداق ہے:
أَ لَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِي السَّماءِ (ابراهیم ـ 24)
میں نے جیسے ہی ٹیلی ویزن سے التحریر اسکوائر پر مصر کی مایہ ناز قوم کی شجاعت کا مشاہدہ کیا، مجھے پورا یقین ہو گیا کہ کامیابی اس انقلاب کا مقدر ہے۔ میں ایک حقیقت آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی تشکیل مغرب و مشرق کی دنیا پرست حکومتوں کے اندر عظیم زلزلے کا باعث بنی اور جس نے مسلمان قوموں کے اندر عدیم المثال جوش و جذبہ بھر دیا، ہمیں یہ توقع تھی کہ مصر دوسرے ملکوں سے پہلے قیام کرے گا۔ مصر میں جہاد، روشن خیالی اور عظیم مجاہد و مدبر شخصیات کی تربیت کی وجہ سے ہمارے دلوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی لیکن مصر سے ہمیں کوئی واضح آواز سنائي نہیں دے رہی تھی۔ میں مصری عوام کے لئے اپنے دل ہی دل میں ابو فراس کا یہ شعر گنگنایا کرتا تھا کہ
اَراکَ عَصِیَّ‌ الدَّمعِ شیُمتُک الصبر ـ اَما لِلهوی نهیٌ علیک و لا امرٌ ..؟
جب میں نے التحریر اسکوائر اور مصر کے دیگر شہروں کے مناظر دیکھے تو مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ مصری قوم نے اسی دل کی آواز سے مجھے جواب دیا کہ
بَلی اَنَا مُشتاقٌ و عِندِیَ لَوعةٌ ولکنَّ مِثلی لایُذاعُ لهُ سِرٌّ ..
یہ مقدس راز یعنی قیام کا عزم اور جوش و جذبہ بتدریج مصری قوم کے ذہن میں پروان جڑھتا رہا، خاص قالب میں ڈھلتا رہا اور مناسب تاریخی موڑ پر آکر بڑے پرشکوہ روپ میں پردہ راز سے نکل کر میدان میں آ گیا۔ تیونس، یمن، لیبیا اور بحرین کا بھی یہی انجام ہونے والا ہے۔
و مِنهم مَن یَنتظِر و ما بدّلوا تبدیلاً
اس طرح کے انقلابات میں اصول، اقدار اور اہداف جماعتوں اور تنظیموں کے پہلے سے مدون منشور میں نہیں بلکہ میدان عمل میں موجود عوام کے ذہن و دل اور خواہشات کے صفحے پر لکھے جاتے ہیں اور ان کے نعروں اور اقدامات کی صورت میں سامنے آتے اور خود کو تسلیم کرواتے ہیں۔
اس نقطہ نگاہ کے تحت بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ مصر اور دیگر ممالک کے انقلابوں کے اصول یہ ہیں؛
• اس قومی وقار کا احیاء اور بازیابی جو بدعنوان حکام کے آمرانہ اقتدار یا امریکہ و مغرب کے سیاسی تسلط کے نتیجے میں پامال ہوکر رہ گيا تھا۔
• اسلام کے پرچم کی سربلندی جو عوام الناس کی دیرینہ دلی آرزو اور ان کے پختہ ایمان کا ایک پہلو ہے، ذہنی و فکری آسودگی اور پیشرفت و شکوفائي جو اسلامی شریعت کے سائے میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
• امریکہ اور یورپ کے تسلط اور نفوذ کے مقابلے میں، جس نے دو صدیوں کے دوران ان ممالک کے عوام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور ان کی توہین کی ہے، استقامت و پائیداری
• جعلی اور غاصب صیہونی حکومت سے مقابلہ جسے استعمار نے کسی خنجر کی طرح علاقے کے ملکوں کے پہلو میں پیوست کر دیا ہے اور اپنے شیطانی تسلط کو جاری رکھنے کے لئے ایک حربہ بنا رکھا ہے اور ایک قوم کو اس کی اپنی سرزمین سے بے دخل کر دیا ہے۔
• بلا شبہ یہ حقیقت کہ علاقے کے ان انقلابات کی بنیاد یہی اصول ہیں اور علاقہ ان پر عملدرآمد کا خواہشمند ہے امریکہ، مغرب اور صیہونزم کو گوارا نہیں ہے اور وہ اس حقیقت کا انکار کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہے ہیں لیکن ان کے انکار سے حقیقت بدلنے والی نہیں ہے۔
ان انقلابوں کا عوامی ہونا ان کی اہم ترین شناخت ہے۔ بیرونی طاقتیں جو اپنی تمام تر توانائیوں اور چالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کوشش کر رہی تھیں کہ ان ممالک میں بدعنوان، استبدادی اور ان کے اشاروں پر کام کرنے والی حکومتوں کی حفاظت کریں اور انہوں نے اس وقت یہ حمایت بند کی جب عوام کے قیام اور قوت ارادی نے ان کے لئے کوئی امید باقی نہیں چھوڑی، ان طاقتوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ خود کو ان انقلابوں کی کامیابی کا سہر اپنے سر باندھیں۔ لیبیا میں بھی امریکہ اور نیٹو کی دراندازی اور مداخلت اس حقیقت کو مشتبہ نہیں بنا سکتی۔ لیبیا میں نیٹو نے ناقابل تلافی المیئے رقم کئے ہیں۔ اگر نیٹو اور امریکہ کی فوجی مداخلت نہ ہوتی تو بے شک یہ ممکن تھا کہ عوام کو کچھ تاخیر سے فتح ملتی لیکن اتنی بنیادی تنصیبات مسمار ہونے سے بچ جاتیں، اتنی بے گناہ جانیں، عورتیں اور بچے تلف نہ ہوتے اور برسہا برس سے قذافی کی مدد میں پیش پیش رہنے والے یہ دشمن اس جنگ زدہ مظلوم ملک میں دخل اندازی نہ کرتے۔
عوام اور ممتاز عوامی شخصیات اور عوام کے بیچ سے اٹھ کر آنے والے رہنما اس انقلاب کے معمار، اس کے محافظ، اس کے مستقبل کی سمت کا تعین کرنے والے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، انشاء اللہ۔
2: جہاں تک خطرات اور اندیشوں کا تعلق ہے تو سب سے پہلے میں اس بات پر تاکید کروں گا کہ خطرہ بے شک موجود ہے لیکن اس سے بچنے کا راستہ بھی ہے۔
خطرات کی طرف توجہ قوموں میں خوف و ہراس پھیلنے کا باعث نہیں بننا چاہئے بلکہ آپ کے دشمنوں پر خوف طاری ہونا چاہئے۔

انّ کید الشیطان کان ضعیفا
اللہ تعالی صدر اسلام کے مجاہدین کے ایک گروہ کے سلسلے میں فرماتا ہے کہ
الَّذِينَ قالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزادَهُمْ إِيماناً وَ قالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ. فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَ اتَّبَعُوا رِضْوانَ اللَّهِ وَ اللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ.
خطروں کی شناخت کرنا چاہئے تاکہ اس کا سامنا ہونے پر اضطراب اور پس و پیش کی کیفیت پیدا نہ ہو بلکہ راہ حل پہلے سے معلوم رہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان خطرات سے ہم بھی دوچار ہو چکے ہیں۔ ہم نے انہیں پہچان لیا، ان کے سلسلے میں تجربہ حاصل کر لیا۔ اللہ تعالی کی مرضی، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی قیادت اور عوام کی بصیرت و فداکاری کے ذریعے ہم ان کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ البتہ دشمن کی جانب سے سازشیں اور ہماری قوم کا استقامت آج بھی جاری ہے۔
میں ان خطرات کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک تو وہ خطرات ہیں جن کی جڑیں ہماری اندرونی صفوں میں موجود ہیں اور ان کا سرچشمہ خود ہماری کمزوریاں ہیں اور دوسرے وہ خطرات جن کی منصوبہ بندی براہ راست دشمن کر رہے ہیں۔
اول الذکر خطرات کے زمرے میں اس احساس اور تصور کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ ڈکٹیٹر حکومت کے گر جانے کے بعد معرکہ سر ہو گیا۔ فتح کے احساس سے پیدا ہونے والا اطمینان اور اس کے بعد جوش و جذبے کا کم ہونا اور ارادوں کا کمزور پڑنا سب سے پہلا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ اس وقت اور بھی ہولناک ہو جاتا ہے جب کچھ افراد حاصل ہونے والے مال غنیمت میں اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ جنگ احد کا واقعہ اور درے پر تعینات سپاہیوں کا مال غنیمت پر ٹوٹ پڑنا جو مسلمانوں کی شکست کا باعث بنا اور اللہ تعالی نے فوجیوں کی سرزنش کی ایک ایسی یادگار مثال ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کیی جانی چاہئے۔ مستکبرین کی ظاہری ہیبت سے مرعوب ہو جانا اور امریکہ اور دیگر مداخلت پسند طاقتوں سے خوفزدہ ہو جانا اسی زمرے میں آنے والا دوسرا بڑا خطرہ ہے جس کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ شجاع دانشوروں اور نوجوانوں کو چاہئے کہ دلوں سے یہ خوف مٹا دیں۔ دشمن پر بھروسہ کرنا اور اس کے وعدوں، مسکراہٹوں اور حمایت کے دام میں آ جانا بھی بہت بڑا خطرہ ہے جس سے خاص طور پر رہنماؤں اور اہم شخصیات کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دشمن چاہے جیسا لبادہ اوڑھ کر آئے خاص نشانیوں کی بنیاد پر اسے پہچان لینا چاہئے اور اس کے مکر و حیلے سے، جو بسا اوقات ظاہری دوستی اور امداد کی آڑ میں چھپے ہوتے ہیں، قوم اور انقلاب کی حفاظت کرنا چاہئے۔ اس کا دوسرا رخ خود فریبی میں مبتلا ہوکر دشمن کو غافل سمجھ لینا ہے۔ شجاعت کے ساتھ ساتھ تدبر سے کام لینا چاہئے۔ شیاطین جن و انس کے مقابلے میں ضروری ہے کہ انسان اپنے وجود میں ودیعت کر دی جانے والی اللہ تعالی کی نعمتوں کو بروئے کار لائے۔ انقلابیوں کے درمیان اختلاف بھڑکانا، انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دینا اور مجاہدین کے محاذ میں رخنہ اندازی کرنا بھی بہت بڑی تشویش کی بات ہے جس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے۔
دوسرے قسم کے خطرات کا جہاں تک تعلق ہے تو علاقے کی قوموں نے مختلف واقعات میں ان کا تجربہ کیا ہے۔ سب سے پہلا خطرہ ان عناصر کو اقتدار میں پہنچانا ہے جو امریکہ اور مغرب کے بڑے وفادار ہیں۔ مغرب کی چال یہ ہے کہ جب اس کے اشارے پر کام کرنے والے مہروں کا ایک ایک کرکے گرنا ناگزیر ہو گیا ہے تو نظام کی بنیادی شکل اور اقتدار کے اصلی ستونوں کو اسی طرح برقرار رکھے اور اس جسم پر بس ایک نیا چہرہ لگا دے جس سے اس کے تسلط کی بساط بچھی رہے۔ یہ در حقیقت انقلابیوں کی مجاہدت و مساعی کے رائیگاں چلے جانے کے معنی میں ہے۔ اس مرحلے میں اگر مغرب کو عوام کی ہوشیاری و پائيداری کا سامنا کرنا پڑے تو وہ عوام کے سامنے مختلف گمراہ کن متبادل راستے پیش کرنے لگتا ہے۔ اس ڈرامے میں ممکن ہے کہ ایسے آئین اور حکومتی ڈھانچے کی تجویز پیش کی جائے جو اسلامی ممالک کو ایک بار پھر مغرب کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی چنگل کا اسیر بنا دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انقلابیوں کی صفوں میں داخل ہوکر غیر مطمئن حلقوں کو تقویت پہنچانے اور انقلاب کے اصلی حلقوں کو حاشئے پر ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی در حقیقت مغربی تسلط کی بحالی اور انقلاب کے اصولوں سے بیگانہ اور ملمع کاری شدہ انہی مغربی طرز کے ڈھانچوں کی واپسی کی راہ ہموار کرنے اور سرانجام حالات پر مغرب کا کنٹرول بحال ہو جانے سے عبارت ہے۔
اگر یہ چال بھی ناکام ہو گئی تو تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ بد امنی پھیلانے، دہشت گردانہ کارروائیاں کروانے، مختلف ادیان کے پیروکاروں، قومیتوں، قبائل، پارٹیوں حتی ہمسایہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے جیسی روشیں اختیار کی جا سکتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی ساتھ اقتصادی پابندیوں، قومی سرمائے کو سیل کرنے اور چاروں طرف سے تشہیراتی یلغار کا راستہ اپنایا جا سکتا ہے۔ ان کا مقصد عوام کو مایوس اور خستہ حال بنا دینا اور مجاہدت پر نظر ثانی کے لئے مجبور کر دینا ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ایسا ہو جانے کی صورت میں انقلاب کو شکست دینا ممکن اور آسان ہو جاتا ہے۔ مقبول عام نیک عمل شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ یا ان میں بعض کو بدنام کرنا اور کمزور افراد کو خریدنا بھی مغربی طاقتوں اور تہذیب و اخلاق کے بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومتوں کے جانے پہچانے حربے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں جاسوسی کے اڈے کے جو دستاویزات انقلابیوں کے ہاتھ لگے، ان سے پتہ چلا کہ یہ سازشیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کی جانب سے ایرانی قوم کے خلاف تیار کی گئی تھیں۔ ان کے لیے انقلابی ممالک میں رجعت پرستی اور پٹھو حکومتوں کو بحال کرنا ایک ایسا اصول ہے جو ان تمام شرمناک طریقوں کو جائز بتاتا ہے۔
3- اپنی بات کے آخر میں میں ایران میں ہم لوگوں کے ذاتی تجربے اور مشاہدے نیز دیگر ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کے بغور جائزے کے سبب حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کچھ نصیحتیں آپ کی صوابدید اور انتخاب اور آرا کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ بلاشبہ ہر چیز میں اقوام اور ممالک کے حالات یکساں نہیں ہیں تاہم کچھ ایسی واضح باتیں ہیں جو سب کے لیے مفید ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی پر توکل کر کے، قرآن مجید میں کیے جانے والے نصرت الہی کے ٹھوس وعدوں پر حسن ظن رکھ کر اور عقل، عزم اور شجاعت سے استفادہ کرکے ان تمام رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ ان پر فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ آپ لوگوں نے جس کام کے لیے کمر ہمت باندھی ہے وہ بہت عظیم اور فیصلہ کن ہے بنابریں اس کے لیے بڑی بڑی مشکلات بھی برداشت کرنی ہوں گي۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَقْصِمْ جَبَّارِي دَهْرٍ قَطُّ إِلَّا بَعْدَ تَمْهِيلٍ وَ رَخَاءٍ وَ لَمْ يَجْبُرْ عَظْمَ أَحَدٍ مِنَ الْأُمَمِ إِلَّا بَعْدَ أَزْلٍ وَ بَلَاءٍ وَ فِي دُونِ مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ عَتْبٍ وَ مَا اسْتَدْبَرْتُمْ مِنْ خَطْبٍ مُعْتَبَر.. اہم نصیحت یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ عمل کے میدان میں سمجھیں:

فاذا فرغت فانصب،

خداوند متعال کو ہمیشہ حاضر اور اپنا مددگار سمجھیے:

و الی ربک فارغب، 

کامیابیاں ہمیں گھمنڈ اور غفلت میں مبتلا نہ کر دیں،

اذا جاء نصرالله و الفتح و رأیت الناس یدخلون فی دین الله افواجاً فسبح بحمد ربک 

یہ ساری باتیں ایک مومن قوم کی حقیقی پشتپناہ ہیں۔
دوسری نصیحت، انقلاب کے اصولوں کا مسلسل اعادہ ہے۔ نعروں اور اصولوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق اور خالص بنایا جانا چاہیے۔ خودمختاری، آزادی، انصاف پسندی، سامراج اور استعمار کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا، قومی، نسلی اور مذہبی امتیازی سلوک کا انکار، صیہونزم کا واضح طور پر انکار یہ سب اسلامی ملکوں کی آج کی تحریکوں کے بنیادی اصول ہیں اور سب کے سب اسلام اور قرآن سے ماخوذ ہیں۔
اپنے اصولوں کو کاغذ پر لکھیے۔ اپنی اصلی پہچان کی پوری توجہ کے ساتھ حفاظت کیجئے۔ ہرگز اس بات کی اجازت نہ دیجئے کہ آپ کے آئندہ نظام کے اصول آپ کے دشمن تیار کریں۔ اسلامی اصولوں کو وقتی مفادات کی قربانی نہ بننے دیجئے۔ انقلاب میں انحراف، نعروں اور اہداف کے انحراف سے شروع ہوتا ہے۔ امریکہ، نیٹو، اسی طرح برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی جرائم پیشہ حکومتوں پر جو طویل عرصے سے آپ کی سرزمین کو آپس میں بانٹ کر مزے سے لوٹ رہی تھیں ہرگز اعتماد نہ کیجئے۔ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھئے اور ان کی مسکراہٹوں پر نہ جائیے۔ ان مسکراہٹوں اور وعدوں کے پیچھے ان کی سازشیں اور خیانتیں پوشیدہ ہیں۔ اسلام کے مسلسل ابلتے چشمے سے فیضیاب ہوتے ہوئے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کیجئے اور غیروں کے پیش کردہ نسخے انہی کو لوٹا دیجئے۔
ایک اور اہم سفارش مذہبی، قومیتی، نسلی، قبائلی اور سرحدی اختلافات سے پرہیز ہے۔ تنوع کو تسلیم کیجئے اور اس کے لئے صحیح انتظامی بندوبست کیجئے۔ اسلامی مکاتب فکر کے درمیان ہم فکری کامیابی کی کنجی ہے۔ جو لوگ کبھی کسی کو اور کبھی کسی اور کو کافر قرار دیکر اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں وہ شیطان کے خدمت گار ہیں لیکن شاید انہیں اس کا اندازہ نہ ہو۔
نظام کی تشکیل آپ کا سب سے اہم اور اصلی کام ہے۔ یہ بہت پیچیدہ اور دشوار کام ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ پر الحادی مکتب فکر، مغربی لبرلزم، انتہا پسندانہ نیشنلزم یا مارکسی نظریات آپ کے ذہن پر مسلط کر دیئے جائیں۔
مشرقی محاذ منہدم ہو گیا جبکہ مغربی بلاک تشدد، جنگ اور فریب دہی کی بنیاد پر باقی رہ گیا ہے لیکن اس کے لئے کسی اچھے انجام کی امید نہیں ہے۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حالات سامراجی طاقتوں کے خلاف اور اسلامی تحریک کے موافق ہوتے جا رہے ہیں۔
حتمی ہدف، متحدہ امت اسلامیہ اور دین و عقل و علم و اخلاق کی بنیاد پر جدید اسلامی تمدن کی تعمیر ہونا چاہئے۔
درندہ صفت صیہونیوں کے چنگل سے فلسطین کی رہائی بھی بہت بڑا ہدف ہے۔ بلقان، قفقاز اور مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال کے بعد سابق سوویت یونین کے چنگل سے آزاد ہوئے تو مظلوم فلسطین ستر سال بعد ظالم صیہونیوں کے چنگل سے کیوں نہیں آزاد کرایا جا سکتا؟
اس وقت اسلامی ممالک کی نوجوان نسل میں یہ صلاحیت ہے کہ بڑے کارنامے سرانجام دے۔ آج کی نوجوان نسل اپنے اسلاف کے لئے باعث افتخار ہے۔ بقول ایک عرب شاعر کے؛

قالوا: ابوالصَّخر مِن شَیبان قُلتُ لَهُم کلاّ لَعمَری ولکن منهُ شیبانٌ
وَ کَم اَبٍ قد عَلاَ بِابنٍ ذُری شَرَفٍ کما عَلا برسول الله عدنانٌ

اپنی نوجوان نسل پر اعتماد کیجئے۔ اس کے اندر خود اعتمادی بڑھائیے، اسے تجربہ کار اور کہنہ مشق افراد کے تجربات سے بہرہ مند کیجئے۔
یہاں دو اہم نکات ہیں؛
ایک تو یہ کہ انقلاب لانے والی اور آزادی حاصل کرنے والی قوموں کی ایک اہم ترین خواہش ملک کا نظم و نسق چلانے میں عوام کا موثر کردار ہے اور چونکہ وہ اسلام کو مانتی ہیں لہذا ان کی پسند اسلامی جمہوری نظام ہے۔ یعنی عہدیداروں کا انتخاب عوام کے ذریعے ہوگا اور معاشرے میں ان اصولوں اور اقدار کی بالادستی قائم کی جائے گی جو اسلامی تعلیمات اور شریعت سے ماخوذ ہیں۔ یہ ہدف مختلف ممالک میں حالات کے تقاضوں کے مطابق مختلف شکلوں اور انداز میں حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں مکمل احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے کہ غلطی سے مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اس کی جگہ نہ لے لے۔ ان دونوں مکاتب فکر کے درمیان فرق کو اور بھی واضح کرنا چاہئے۔ انتہا پسندانہ مذہبی تعصب جو کورانہ تشدد سے جڑا ہوتا ہے پسماندگی اور انقلاب کے اعلی اہداف سے دوری کا باعث ہے اور یہ چیز عوام کو برگشتہ اور نتیجے میں انقلاب کو شکست خوردہ بنا دیتی دی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی بات کوئی غیر واضح اور مبہم بات نہیں ہے جس کی منمانی تفسیر کر دی جائے۔ یہ صاف طور پر نظر آنے والی اور محسوس کی جانے والی عینی حقیقت ہے جو فضا میں پھیل چکی ہے، عظیم انقلابات برپا کر رہی ہے اور دشمن محاذ کے خطرناک مہروں کو سرنگوں کرکے میدان سے باہر کر چکی ہے۔ اس کے باوجود تغیرات جاری ہیں جنہیں صحیح سمت دینے اور درست انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ گفتگو کے آغاز میں جن آیات کی تلاوت کی گئی وہ ہمیشہ کے لئے اور خاص طور پر موجودہ حساس اور تقدیر ساز دور کے لئے انتہائی کارساز اور کامل دستور العمل ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرکے بیان کیا گيا ہے لیکن در حقیقت یہ خطاب ہم سب سے بھی ہے۔ ان آیات میں سب سے پہلے تقوی کی اس کی معنوی رفعت و گیرائی کے ساتھ سفارش کی گئي ہے۔ اس کے بعد کافروں اور منافقوں کی سرپیچی و خودسری، وحی الہی کی پیروی اور سرانجام اللہ پر توکل اور اعتماد کا ذکر ہے۔
میں ان آیتوں کو ایک بار اور دوہرانا چاہوں گا؛

بسم‌الله‌الرحمن‌الرحیم

 يا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ ‌اللَّهَ وَ لا تُطِعِ الْكافِرينَ وَ الْمُنافِقينَ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليماً حَكيماً(1) وَ اتَّبِعْ ما يُوحى‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً (2) وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَ كَفى‏ بِاللَّهِ وَكيلاً.

والسلام علیکم و رحمةالله

نظرات بینندگان
نام:
ایمیل:
انتشاریافته:
در انتظار بررسی: ۰
* نظر:
جدیدترین اخبار پربازدید ها